سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے دور میں ایک موچی تھا وہ اپنی کاریگیری کی وجہ سے ۔۔۔۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے دور میں ایک موچی تھا وہ اپنی کاریگیری کی وجہ سے ۔۔۔۔

مصر کے شہر اسکندریہ کے اندر ایک بازار تھا اس بازار کا نام ویصری بازار تھا یہ بازار کاروباری لحاظ سے بہت سے قبیلوں کے ساتھ جڑا ہوا تھا اور یہ بہت ہی قدیم ترین بازار تھا وہ بازار سلطان نورالدین زنگی رحمت اللہ علیہ نے اپنے دور سلطنت کے دوران بنایا تھا اور وہ بازار مصر کی تجارت میں کافی مددگار ثابت ہوا تھا اور اب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کا دور سلطنت تھا اور وہ بازار دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا ہوا چل رہا تھا اس بازار میں نہ صرف مصر کے ملک فلسطین شام اور دور دور کے ممالک سے لوگ تجارت کرنے کے لیے آتے تھے کیونکہ وہ بازار ایک ایسے مقام پر بنایا گیا تھا جس کو چاروں طرف سے آنے والے راستے لگتے تھے اسی بازار کے اندر ایک موچی رہتا تھا جس کی ایک دکان تھی وہ دکان اس نے کرائے پر لی ہوئی تھی اور اس دکان کا مالک ایک موچی ہی تھا اور اب وہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا اور اس موچی کی خواہش تھی کہ میں یہ دکان آگے صرف کسی اور موچی کو ہی کرائے پر دوں گا کیونکہ میں نے اس دکان سے بہت اچھا كمایا اور اللہ نے اس دکان میں بہت برکت ڈالی لہذا میری خواہش ہے کہ میں اس دکان کو صرف ایک موچی کو ہی کرائے پر دوں گا اور اسی وجہ سے وہ دکان ایک اہم جگہ پر ہونے کے باوجود ایک موچی ہی چلاتا تھا اور وہ موچی بھی کوئی عام موچی نہیں تھا بلکہ مصر کا ماہر ترین اور کاریگر موچی تھا وہ ایسے ایسے جوتے تیار کرتا کہ رینالڈ بادشاہ کو بھی اس موچی کے بنائے گئے جوتے متاثر کر دیتے حتی کہ اس موچی کے بنائے گئے جوتے بڑے بڑے سلطنتوں کے بادشاہوں نے باہر لوگوں کو تحائف میں دینے کے لیے بہتر جاتے اور موچی اس وجہ سے بھی بہت مشہور تھا کہ بڑے بڑے ذمہ دار تاجر اور بادشاہوں کی ملکاؤں کے جوتے اور حتی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ کے اور ان کی زوجہ عصمت الدین خاتون کے جوتے بھی وہ موچی ہی تیار کرتا تھا۔

 سلطان کی بیوی عصمت الدین خاتون اس موچی کے بنائے گئے جوتوں کی بہت تعریف کیا کرتی تھی کیونکہ وہ پیروں میں پہننے پر بڑے آرام دہ اور دکھنے میں انتہائی شاندار محسوس ہوتے تھے وقت گزرتا رہا اور وہ موچی اپنے ہنر کی وجہ سے پورے مصر فلسطین اور شام بلکہ بڑے بڑے ملکوں نے مشہور ہو گیا تھا اس موچی کا نام قاضی علم دین تھا وہ نام کا صرف قاضی تھا چونکہ اس کو بچپن میں اس کے بابا قاضی علم دین بلاتے تھے لہذا اس کے نام کے ساتھ قاضی علم دین لگ چکا تھا لیکن وہ پیشے کے لحاظ سے قاضی نہیں تھا بلکہ ایک موچی تھا ایک دفعہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ دربار میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ موچی اپنے ہاتھ میں تھیلا پکڑے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ کے سامنے حاضر ہوا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ اس موچی کو اچھی طرح جانتے تھے کیونکہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ اس کے ہاتھوں کی بنے جوتے پہنتے تھے جب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے ہاتھ میں ایک قیمتی تھیلا دیکھا اور اس موچی کو اپنے سامنے دیکھا تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ سمجھے کہ شاید قاضی علم دین موچی میرے لیے جوتے تحائف میں لے کر آیا ہے سلطان نے کہا قاضی علم دین اس بار تم میرے لیے کیا لے کر آئے ہو کیا اس بار بھی میرے لیے کوئی اچھے سے جوتے بنا کر لائے ہو کیونکہ موسم بدل رہا ہے تو علم دین موچی نے خاموش کھڑے ہوئے اپنا چہرہ نیچے لٹکایا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ سمجھ چکے تھے ضرور قاضی علم دین کسی مشکل میں ہے چونکہ اس کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا ماتھے پر شکم پڑے ہوئے تھے اور آنکھیں انتہائی افسردہ تھیں سلطان نے پوچھا بتاؤ قاضی صاحب اس تھیلے میں کیا ہے اور تم اتنے پریشان کیوں نظر آرہے ہو اس نے کہا سلطان معظم آج صبح میں نے دکان کھولی اور دکان کھولتے ہوئے میرے پاس کافی ہجوم پڑ گیا میں نے اپنا کام شروع کر دیا تھوڑی دیر گزری کے میرے پاس ایک بوڑھا بزرگ آیا وہ اپنے گدھے پر سوار تھا اس نے مجھے ایک تھیلا دیا اور کہا حضور یہ میری بیٹی کے جوتے ہیں۔ تم اس کو مرمت کر دو کیونکہ میری بیٹی کی شادی ہونے والی ہے لہذا ہمیں ان کے جوتوں کی ضرورت پڑے گی میں نے کہا ٹھیک ہے بزرگو آپ کل یہ جوتے لے کر جانا۔

 میں اس بوڑھے بزرگ کو جانتا ہوں وہ بازار کے پاس موجود گاؤں میں رہتا ہے لیکن سلطان معظم جب میں اپنے کام سے فارغ ہو کر میں نے اس تھیلے کو کھولا تو اس تھیلے کے اندر کوئی جوتا نہیں تھا بلکہ اس تھیلے کے اندر ایک عورت کے دو کٹے ہوئے بازو تھے یہ سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور کہا آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں یہ الفاظ سن کر سلطان خود بہت پریشان ہو گئے تھے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے اور ایسا کون کر سکتا ہے پھر سلطان نے حیرانگی کے عالم میں اس موچی سے کہا کہ آپ نے تحقیق نہیں کی کہ وہ بوڑھا جس نے آپ کو یہ تھیلا دیا کہاں گیا اور آپ نے اس بوڑھے سے پوچھا نہیں یہ وہ آپ کو دھوکے سے کیوں دے گیا اور اس تھیلے میں موجود کٹے ہوئے بازو کس عورت کے ہیں اور اس بوڑھے نے اس عورت کو کیوں قتل کیا تو اس نے کہا حضور جب میں نے اس تھیلے میں کٹے بازو دیکھے تو میں چند لمحوں کے لیے کانپنے لگا لیکن جب میں اپنے گھر میں واپس  آیا تو مجھے اور کوئی راستہ دکھائی نہ دیا میں بہت زیادہ بے چینی کا شکار ہو گیا تھا حتی کہ میرے جسم سے پسینے کی نالیاں بہہ رہی تھیں میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی اور میں اس قدر پریشان ہو گیا کہ میں آپ کو الفاظ میں بیان ہی نہیں کر سکتا یہ سارا ماجرہ دیکھتے اور جانتے ہوئے جب مجھے کچھ سمجھ نہ آیا تو ان کو لے کر آپ کے پاس آگیا میں جانتا تھا اگر بازار میں موجود کسی اور نے اس تھیلے میں موجود عورت کے کٹے بازو دیکھ لیے تو وہ مجھے سیدھا قاضی صاحب کے پاس لے جائیں گے اور قاضی صاحب بنا کوئی ثبوت بنا کوئی جانچ کیے مجھے اس ثبوت کی بنا پر ہی پھانسی کی سزا دے دیں گے اور سلطان معظم یہ بھی ممکن ہے کہ جب کوئی بھی شخص  اس تھیلے میں کٹے ہوئے بازو دیکھتا تو پورے بازار میں خوف و حراس پھیل جاتا یہ سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اُس بوڑھے کو ابھی اور اسی وقت حاضر کیا جائے سلطان کے سپاہی گئے اور قاضی کی بتائی ہوئی جگہ پر اس بوڑھے کو جھونپڑی سے اٹھا کر لائے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا بابا  70 سال  آپ اپنی عمر دیکھیں اور اپنے کام دیکھیں سال آپ کی عمر لگ رہی ہے موت آپ کے قریب ہے اور آپ نے ایک لڑکی کا قتل کیا بتاؤ اس کے پیچھے کیا وجہ تھی یہ سن کر وہ کانپنے لگا اور کہا حضور یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں میں نے کسی کو قتل نہیں کیا میں تو خود ایک نوجوان بیٹی کا باپ ہوں اور بڑی مشکلوں سے اس کو رخصت کر رہا ہوں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ نے اس بوڑھے کو تفصیل سے بتایا کہ کس طرح تم اس کو تھیلا دے کر گئے اور جب موچی صاحب نے اس کو کھولا تو اس میں دو کٹے ہوئے بازو تھے اب یہ تو ممکن نہیں سکتا نا کہ کسی عورت کے کٹے ہوئے بازوں کو چوڑیاں پہنائی جا سکے اس نے کہا سلطان معظم میں نہیں جانتا کہ اس تھیلے میں بازو کیسے آئے مجھے میری بیٹی نے اس میں جوتے ڈال کر دیے تھے پھر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ نے اس سے پوچھا بابا جی جب آپ اپنے گھر سے وہ تھیلا لے کر نکلے تو آپ نے کہیں پڑاؤ کیا تھا کہیں آپ رکے تھے یا آپ کو کوئی راستے میں ملا تھا تو اس نے کہا جی ہاں سلطان معظم جب میں اپنے گھر سے نکلا تو بازار میں موجود طعام خانے پر گیا میں نے وہاں جا کر دو سکے ادا کر کے ایک ٹھنڈا مشروب پیا اور اپنا تھیلا 

لے کر وہاں سے چل پڑا لیکن جب میں وہاں طعام خانے سے اٹھنے لگا تو میرے ساتھ والی نشست پر ایک اور آدمی بیٹھا ہوا تھا اور اس کے پاس وہی تھیلا تھا اور اسی طرح اس بوڑھے کو یاد آیا حضور ہو سکتا ہے کہ میرا تھیلا اس نے مجھ سے بدل دیا ہو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا بابا جی کیا تم اس نوجوان کو جانتے ہو اس نے کہا نہیں۔ سلطان معظم میری آنکھیں بہت کمزور ہیں اتنا واضح نہیں دیکھ سکتا بس نظر اتنا آتا ہے کہ کسی بھی محتاجی کے بغیر چل سکتا ہو یہ سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمة اللہ علیہ نے قاضی صاحب کو حکم دیا کہ یہ تھیلا میرے سامنے حاضر کیا جائے قاضی صاحب نے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے تھیلا رکھا اور کہا حضور یہ میرا تھیلا نہیں اس تھیلے پر استعمال ہونے والا چمڑا بہت مہنگا لگتا ہے اور جو قاتل ہے وہ کوئی عام انسان نہیں بلکہ بہت بڑا تاجر یا کوئی ذمہ دار لگتا ہے یہ سن کر سلطان نے کہا سمجھ اس بات کی نہیں آرہی کہ اگر وہ کسی لڑکی کو قتل کرتا تو اس کے بازو کاٹ کر اُسے تھیلے میں ڈال کر کہاں لے کر جا رہا تھا آخر اس کے پیچھے کیا راز ہے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ نے اس وقت اپنے قریبی ساتھی علی بن سفیان کو اپنے پاس بلایا اور کہا اے علی آج جو تم پر میں فرض سونپنے والا ہوں وہ بہت بڑا فرض ہے اس کے پیچھے دو  آدمیوں کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے اگر اس تھیلے کہ تم مالک کو نہ پکڑ پائے تو مجھے مجبورا اس بوڑھے بزرگ یا پھر قاضی علم دین کو سزا دینی ہوگی لہذا ان دونوں آدمیوں کی زندگی تمہارے ہاتھ میں ہے جاؤ اور اس تھیلے کے مالک کا پتہ کرو کہ آخر اس قاتل نے یہ تھیلا کہاں سے لیا یا پھر کس سے بنوایا علی بن سفیان اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور پورے مصر کے بازاروں میں پھرنے لگا ہر تاجر کے پاس گیا أس بازار میں بھی گیا لیکن اس تھیلے کے بارے میں کہیں پتہ نہ چلا کسی تاجر نے نہ بتایا کہ یہ تھیلا کہاں بنتا ہے ایک بازار سے جب علی بن سفیان تھک ہار کر نکلنے لگا تو اتنے میں ایک تاجر نے کہا حضور یہ تو میں نہیں جانتا یہ تھیلا کہاں ملتا ہے لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں۔  کہ اس تھیلے میں استعمال ہونے والا چمڑا فلسطین کا ایک چھوٹا سا بازار ہے وہاں ایک موچی ہے جو اس قسم کا چمڑا بیچتا ہے کیونکہ ایک نفع میں تجارت کے سلسلے میں وہاں گیا تھا اور اسی طرح کا تھیلا میں نے وہاں دیکھا تھا اور یہ باقی چمڑوں کی نسبت پانچ گنا مہنگا ہے یہ سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وقت علی بن سفیان کو فلسطین کی طرف روانہ کر دیا وقت گزرتا رہا اور 15 دنوں کے بعد علی بن سفیان وہاں پہنچ گیا اور جا کر معلوم کیا تو ایک چھوٹے سے بازار میں وہی تاجر موجود تھا اور اسی قسم کا چمڑا اسی کے پاس پڑا ہوا تھا علی بن سفیان نے چمڑے کو دیکھا اور پھر تھیلے والے چمڑے کو دیکھا تو ان میں کافی مشابہت تھی تو علی بن سفیان نے پوچھا اے تاجر بتاؤ یہ چمڑا تم نے کس کو بیچا تھا اس نے کہا حضور دن میں سینکڑوں کی تعداد میں گاہک آتے ہیں میں آپ کو یہ کیسے بتا سکتا ہوں کہ میں نے کس کو بیچا تھا تو اتنے میں علی بن سفیان نے کہا حضور آپ یاد کر یئے یہ آپ سے کچھ ایسا تاجر خرید کر گیا ہو جو فلسطین کا نہیں بلکہ مصر کا ہے یاد کریں کہ آپ کے پاس کوئی ایسا گاہک آیا ہو جو مصر کا ہو یہ سن کر اس نے کہا جی ہاں حضور مجھے یاد آگیا چند ماہ پہلے میرے پاس ایک زرگر نامی تاجر آیا تھا اس نے کہا مجھے ایسا چمڑا دو اس سے میں ایک تھیلا بنوانا چاہتا ہوں اور اس چمڑے کو کوئی عام خنجر بھی آسانی سے نہ کاٹ سکے پھر اس نے مجھ سے کہا یہاں کوئی ایسا موچی ہوگا جو اس چمڑے کا تھیلا بنا سکتا ہو میں نے اسے وہ جگہ بتائی اور وہ اسی کے پاس چلا گیا اور وہاں سے تھیلا بنوایا ہوگا علی بن سفیان اسی وقت اس موچی کے پاس پہنچا اور جا کر اس سے تھیلا دکھایا تو اس نے بھی اس بات کی گواہی دے دی کہ یہ تھیلا وہی آدمی اس سے بنوا کر گیا ہے علی بن سفیان 15دنوں کے سفر کے بعد جب مصر کے شہر اسکندیہ میں پہنچا تو علی بن صفیان نے زرگر نامی تاجر کے بارے میں معلومات لینا شروع کروا دی چند دنوں میں زرگر تاجر کی مکمل معلومات لے کر علی بن سفیان اس کے گھر پہنچا اور سپاہیوں کے ساتھ اس کو گھسیٹتا ہوا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ کی عدالت میں لے آیا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے  کہا تم کو پکڑنے کے لیے علی بن سفیان نے فلسطین کا سفر کیا لیکن تم نے ایک عورت کے ہاتھ کاٹتے ہوئے ذرا بھی نہیں سوچا بتاؤ اس کے پیچھے کیا ماجرہ ہے تم نے ایک عورت کو کیوں قتل کیا اور اس کے بازو کاٹنے کے پیچھے کیا مقصد تھا اس نے کہا سلطان معظم میں بھی ایک موچی تھا اور مصر کے شہر منصورہ کے اندر اپنے ہنر کو آزماتا تھا جس بازار میں میں کام کرتا تھا اسی کے ساتھ ہی ایک زمیندار کی حویلی تھی اور اس حویلی میں ایک لڑکی رہتی تھی وہ زمیندار اس لڑکی کو شاید فلسطین سے خرید کر لایا تھا اور ہر آئے دن وہ زمیندار اس لڑکی کو حویلی میں رقص کروا کر لوگوں سے قیمت وصول کرتا اور میں بہت دفعہ سنا کہ وہ زمیندار نہ صرف خود اس لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا بلکہ بڑے بڑے تاجروں کے سکوں کی خاطر اس کو ہوس نشانہ بنواتا ہے جب میں نے اس لڑکی کے بارے سنا تو ایک دن میں نے زمیندار صاحب کو کہا کہ آپ ہر روز میرے پاس جوتا لے کر آنے کی زحمت نہ کیا کریں میں خود جوتے بنا کر آپ کے پاس آپ کی حویلی میں پہنچا دوں گا ،میں نے جوتا تیار کیا اور تیار کرنے کے بعد حویلی میں پہنچا اور داخل ہوتے ہی میں اس لڑکی کے کمرے میں جا پہنچا 

سلطان معظم وہ کوئی لڑکی نہیں تھی بلکہ بلا کی ایک خوبصورت حسینہ تھی میں نے اسی وقت اس لڑکی کو پسند کر لیا اور میں سیدھا اس زمیندار کے پاس گیا اور اس سے کہا زمیندار صاحب کیا آپ مجھے یہ لڑکی فروخت کرنا چاہیں گے کسی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا تم موچی ہو یہ کوئی چمڑا نہیں کہ اس کو خرید لو گے یہ ایک حسینہ ہے میں نے اسے کہا حضور اس کی قيمت بتائیں جب اس نے قیمت بتائی تو وہ میری سوچ سے بھی زیادہ تھی لیکن میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ اب اس لڑکی کو مزید ہوس کا نشانہ نہیں بننے دوں گا میں نے اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی اکٹھے کی حتی کہ میں نے اپنی دکان بیچ ڈالی سارے سونے کے سکے اکٹھے کیے اور اس لڑکی کوزمیندار سے خرید لیا اور اس کو اپنے گھر لے آیا میں نے اسی رات ہی بتا دیا کہ میں نے تمہیں اب آزاد کروا دیا ہے اب تمہیں کوئی بھی بری نظر سے نہیں دیکھ سکے گا لہذا تم اب اپنی خوشی خوشی زندگی گزار سکتی ہو اس نے کہا میں آپ کا کبھی  زندگی بھر ساتھ نہیں چھوڑوں گی سلطان معظم اب میرے پاس کچھ نہیں بچا تھا میں ایک تاجر کے ساتھ چند دنوں کے لیے دوسرے علاقے میں تجارت کرنے کی غرض سے اس کے ساتھ چلا گیا تاکہ کچھ سکے اس تاجر سے مل سکے لیکن چند دنوں بعد جب میں مقررہ وقت سے پہلے گھر لوٹ آیا تو مجھے پتہ چلا کہ میری بیوی تو اپنے گھر میں موجود نہیں ہے معلوم کرتے کرتے میں اس حویلی میں جا پہنچا تو میری بیوی دوباره اسی حویلی میں رقص کر رہی تھی اور تمام لوگ شراب کے نشے میں دھت میری بیوی کا رقص دیکھ رہے تھے اور اس کے جسم پر کبھی کوئی ہاتھ لگاتا کبھی کوئی شراب پھینکتا یہ سب دیکھ کر میرا خون کھولنے لگا اور مجھے بہت غصہ آیا لیکن میں  نے اپنے غصے پر قابو کیا اور اپنی بیوی کو گھر لے آیا اور اس کو قتل کر کے اس کا باقی جسم جا کر جنگل میں دفنا دیا لیکن میں نے اس کے بازو کاٹے اور اس کو تھیلے میں ڈالا اور یہ سوچ میں لے کر آ رہا تھا کہ جا کر اس وحشی زمیندار کو دکھاؤں گا کہ جو چیز میری نہیں ہو سکی وہ تمہاری بھی نہیں ہونے دوں نے اس لڑکی کی قیمت ادا کی میں نے اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی لگا دی تھی لیکن اس نے پھر بھی مجھے دھوکہ دیا لیکن جب میں بازار میں پہنچا تو مجھے شک ہو گیا کہ میرے گاؤں والوں کو پتہ چل چکا ہے کہ میں نے لڑکی کا قتل کر دیا ہے لہذا وہ میرے پیچھے پیچھے تھے اس لیے میں نے اس بوڑھے کے تھیلے کو دیکھا تو وہ میرے تھیلے سے مشابہت  رکھتا تھا اور میں نے دیکھا کہ اس کی نظر کمزور ہے اس لیے میں نے وہ تھیلا اس کے ساتھ بدل دیا اور اس بوڑھے بزرگ کو پتہ نہیں چلا سلطان معظم میں یہ نہیں جانتا تھا کہ ایک تھیلے کی وجہ سے میں پکڑا جاؤں گا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ نے کہا بے شک وہ زمیندار بھی سزا کا مستحق تھا اور تیری بیوی نے تیرے ساتھ غداری کی لہذا وہ بھی سزا کی مستحق تھی لیکن سزا یا تو قاضی صاحب دے سکتا تھا یا پھر ریاست تم کو سزا دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی کیا تم نہیں جانتے کہ آج تک سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ کی عدالت اور دربار میں سے کبھی کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹا جس کی جو پریشانی ہے اس کا جو جائز حل بنتا ہو ہم نے ہمیشہ نکالا ہے ہم نے کبھی انصاف میں ڈنڈی نہیں ماری ہمیشہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اسلام کے بتائے احکامات کے مطابق ہم نے ہر قاتل مجرم شرابی زانی کو اس کے کئے کی اسی طرح سزا دی جس طرح اسلام نے۔ حکم دیا ہے لہذا تم کون ہو سزا دینے والے تمہیں ایک عورت کے قتل میں پھانسی دی جاتی ہیں اور اس کے بعد سلطان صلاح الدين ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وقت اپنے سپاہیوں کو بھیج کر اس زمیندار کو اٹھوا لیا اور اس کو بھی نامحرم عورتوں کے جسم کے ساتھ کھیلنے کی وجہ سے سنگسار کرنے کا حکم دے دیا اور اسی طرح سلطان صلاح الدين ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک تھیلے کی مدد سے قاتل کو پکڑ لیا اور اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بوڑھے بزرگ کی بیٹی کی رخصتی کا سارا خرچہ سرکاری خزانے کی طرف سے ادا کر لیا اور اس قاتل کے دل میں منافقت کی وجہ سے کیونکہ وہ اس بوڑھے بزرگ کو اپنا گناہ تھونپنا چاہتا تھا اور اس قاتل کی وجہ سے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بوڑھے کے اتنے بڑے بوجھ کو اپنے ذمے لے لیا اور اس کی بیٹی کو رخصت کروا دیا اور قاضی علم دین کو اس کی عقلمندی کی وجہ سے بھی انعام و کرام سے نواز کر اپنے گھر کی طرف رخصت کر دیا اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زندگی میں کبھی بھی آپ کے ساتھ کوئی زیادتی کرتا ہے۔ آپ کے جان مال کو کسی بھی طرح سے نقصان پہنچاتا ہے تو کبھی بھی اپنی من مرضی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ریاست اور اداروں کو اپنی پریشانی اپنی مصیبت سے آگاہ کرنا چاہیے کہ میرے ساتھ فلاں نے زیادتی کی ہے کیونکہ اگر آپ خود اپنے ساتھ کیے گئے ظلم یا زیادتی کا بدلہ لیں گے تو آپ بھی مجرم ٹھہریں گے۔

 

 


Post a Comment

0 Comments